حُرُوْفِ تَہَجِّی اورشانِ مُصْطَفٰی صلَّی اللہ علیہ وسلَّم

حُرُوْفِ تَہَجِّی اورشانِ مُصْطَفٰی صلَّی اللہ علیہ وسلَّم


    (۱)۔۔۔۔۔۔''الف'' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قد و قامت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔(۲)۔۔۔۔۔۔''باء ''سے مراد آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بہجت یعنی حسن وخوبصورتی ہے جس نے چانداورسورج کوروشن کیااورچمکایا۔(۳)۔۔۔۔۔۔'' تاء'' سے مراد تائید ہے جوآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ہر شیطان مردود سے حفاظت کرتی ہے ۔(۴)۔۔۔۔۔۔'' ثاي'' سے مراد ثُبَات ہے جس کی وجہ سے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہر حال میں ثابت قدم رہے لہٰذا ہمیشہ عدل فرمایاکسی پر ظلم نہ کیا۔(۵)۔۔۔۔۔۔''جِیْم ''سے مراد جودووفا ہے جس کی طرف ہمہ وقت متوجہ رہے ۔ (۶)۔۔۔۔۔۔''حَاء ''سے مراد حلم و بزرگی ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے لئے پسندفرمایا۔(۷)۔۔۔۔۔۔''خَاء ''سے مراداختصاص وصفاء ہے یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو بے شمار خوبیاں عطافرماکر ہر طرح کے میلے پن سے پاک و صاف رکھا۔(۸)۔۔۔۔۔۔''دَال '' سے مراد دوامِ احسان یعنی بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے نیکی وبھلائی پرہمیشگی کی توفیق عطاہوئی پس آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ہیبت و جلال سے بت اوندھے منہ گرگئے ۔ (۹)۔۔۔۔۔۔''ذَال'' سے مراد ذلت سے حفاظت ہے یعنی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ذات عالی سے ذلت ورسوائی دوررہی حتی کہ وہ خود ہی حقارت وذلت میں مبتلاہوگئی ۔(۱0)۔۔۔۔۔۔''رَاء'' سے مراد رحمت ہے جس کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو مبعوث فرمایا۔(۱۱)۔۔۔۔۔۔''زاء'' سے مراد آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کابے مثل زُہد وقناعت ہے ۔(۱۲)۔۔۔۔۔۔''سِیْن'' سے مرادسیادت وسرداری ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو تمام مخلوق کی سرداری سے سرفرازکرکے ممتازفرمایا۔
 (۱۳)۔۔۔۔۔۔ ''شِیْن '' سے مراد شفاعت ہے کہ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن، شَفِیْعُ ا لمُذْنِبِیْن، اَنِیْسُ الْغَرِیْبِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم بروزِ قیامت گنہگاروں اورنافرمانوں کی شفاعت وسفارش فرمائیں گے۔ (۱۴)۔۔۔۔۔۔''صَاد'' سے مراد صیانت وحفاظت ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ہرعیب سے حفاظت فرمائی اورامانت کی تلوار آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ کر دی۔ (۱۵)۔۔۔۔۔۔''ضَاد'' سے مراد ضیاء وانوارہیں جواللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوعطافرمائے۔ (۱۶)۔۔۔۔۔۔''طَاء'' سے مراد طریقِ اقبال(یعنی راہِ عروج )ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے لئے کھول دی۔ (۱۷)۔۔۔۔۔۔ ''ظَاء '' سے مراد ظلم و گمراہی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے طفیل آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی امت کو ظلم و گمراہی سے نکال دیا۔(۱۸)۔۔۔۔۔۔''فَاء ''سے مراد فرحت ومسرت ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی امت آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زبان مبارک سے بشارتیں اورخوشخبریاں سن کر مسرور ہو گئی۔(۱۹)۔۔۔۔۔۔''قَاف'' سے مراد قاب قوسین (یعنی دوہاتھ کا فاصلہ) ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوشب ِمعراج اس قرب سے مشرّف فرمایا۔ (۲0)۔۔۔۔۔۔''کَاف'' سے مراد کلام الٰہی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جھوٹ سے پاک اپنے لاریب کلام کے ذریعے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوعزت وبزرگی عطا فرمائی۔ (۲۱)۔۔۔۔۔۔''لَام'' سے مراد لطفِ الٰہی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر شک وشبہ سے مُنزَّہ لطف ومہربانی فرمائی۔(۲۲)۔۔۔۔۔۔''مِیْم'' سے مراد مَنّ(یعنی احسان)ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو اسرار پر مطلع فرماکرآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پراحسان فرمایا۔(۲۳)۔۔۔۔۔۔''نون'' سے مرادنورانیتِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی دنیامیں جلوہ گری ہوتے ہی ایران کاایک ہزارسال سے شُعلہ زَن آتَش کَدہ بجھ گیا۔ (۲۵)۔۔۔۔۔۔''ھَا ''سے مرادہیبت ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوایسا رعب ودبدبہ عطافرمایاجس سے بڑے بڑے طاقتورشہسوار زیرہوگئے ۔ (۲۵)۔۔۔۔۔۔''وَاؤ ''سے مراد وقارہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کمالِ وقاروبردباری سے موصوف ہیں۔(۲۶)۔۔۔۔۔۔ ''یَاء ''سے مرادیقین ہے جس کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوتمام جہانوں میں امتیاز عطافرمایا۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو انبیاء ومرسلین کا''خَاتَم'' (یعنی آخری نبی)بنایا اورفضل وفخرکے ساتھ قرآنِ حکیم میں ان کی ذاتِ والاصفات پر یہ آیتِ مبارکہ نازل فرمائی :

 (1) مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ

ترجمۂ کنزالایمان:محمد اللہ کے رسول ہیں اور ا ن کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں۔(پ26،الفتح:29)
    نبئ کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ شفاعت نشان ہے:''جس نے میری قبرِ اقدس کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔''

   (سنن الدارقطنی،کتاب الحج ،باب المواقیت،الحدیث ۶۹ ۶ ۲،ج۲، ص۳۵۱)
    نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ ہدایت نشان ہے: ''تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف کجاوے نہ باندھے جائیں:(۱)۔۔۔۔۔۔مسجد ِحرام (۲)۔۔۔۔۔۔میری مسجد(یعنی مسجد نبوی شریف) اور (۳)۔۔۔۔۔۔ مسجد ِ اقصیٰ ۔'' (۱)

 (صحیح مسلم،کتاب الحج،باب فضل المساجد الثلاثہ،الحدیث،۱۳۹۷،ص۹0۹)

     امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے،حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ رحمت نشان ہے :''جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی،اور جس نے میری قبرِ اقدس کی زیارت نہ کی اس نے مجھ سے جفا کی۔''

 (سنن الدار قطنی، کتاب الحج،باب مواقیت الحج،الحدیث۲۶۶۸،ص۲،ص۳۵۱۔فردوس الاخبارللدیلمی،باب المیم ،الحدیث۵۷0۸، ج۲،ص۲۵۲)

1۔۔۔۔۔۔جمرات :منٰی میں تین مقامات جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں پہلے کانام ''جَمْرَۃُ الاُخْرٰی یا جَمْرَۃُ الْعَقَبَہ''ہے۔اسے بڑاشیطان بھی بولتے ہیں ۔ دوسرے کوجمرۃ الوُسطیٰ(منجھلاشیطان)اورتیسراکوجمرۃ الا ُولیٰ(چھوٹاشیطان)کہتے ہیں۔ (رفیق الحرمین ، ص۴۲)2۔۔۔۔۔۔طوافِ وداع:حج کے بعد مکۂ مکرمہ سے رخصت ہوتے ہوئے کیاجاتاہے۔یہ ہرآفاقی(یعنی میقات کی حدود سے باہر رہنے والے) حاجی پرواجب ہے۔ (رفیق الحرمین،ص۳۵)
1۔۔۔۔۔۔ مفسِّرِ شہیر، حکیم الامت، مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ المنّان فرماتے ہیں: ''یعنی سواء ان مسجدوں کے کسی اور مسجد کی طرف اس لیے سفر کرکے جانا کہ وہاں نماز کا ثواب زیادہ ہے، ممنوع ہے۔ جیسے بعض لوگ جمعہ پڑھنے بدایوں سے دہلی جاتے تھے تاکہ وہاں کی جامع مسجد میں ثواب زیادہ ملے، یہ غلط ہے۔ ہر جگہ کی مسجدیں ثواب میں برابر ہیں۔ اس توجیہ پر حدیث بالکل واضح ہے۔ وہابی حضرات نے اس کے معنٰی یہ سمجھے کہ سواء ان تین مسجدوں کے کسی اور مسجد کی طر ف سفر ہی حرام ہے لہٰذا عرس، زیارتِ قبور وغیرہ کے لیے سفر حرام۔ اگر یہ مطلب ہو تو پھرتجارت، علاج، دوستوں سے ملاقات، علمِ دین سیکھنے وغیرہ تمام کاموں کے لیے سفر حرام ہوں گے اور ریلوے کا محکمہ معطّل ہو کر رہ جائے گا اور یہ حدیث قرآن کے خلاف ہی ہو گی اور دیگر احادیث کے بھی۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: قُلْ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرْضِ ثُمَّ انۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۱۱﴾ ترجمۂ کنز الایمان: تم فرمادو!زمین میں سیرکروپھردیکھو کہ جھٹلانے والوں کاکیساانجام ہوا۔ '' (صاحب ِ)مرقاۃنے اسی جگہ اور(علامہ) شامی نے زیارتِ قبور میں فرمایاکہ چونکہ ان تین مساجد کے سوا تمام مسجدیں برابر ہیں اس لیے اور مسجدوں کی طرف سفر ممنوع ہے اور اولیاء اللہ کی قبریں فیوض وبرکات میں مختلف ہیں۔ لہٰذا زیارتِ قبور کے لیے سفر جائز(ہے)۔ کیا یہ (بدمذہب) جہلاء انبیاء کرام کی قبور کی طرف سفر (سے)بھی منع کریں گے۔'' (مرأۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح، باب المساجد ومواضع الصّلٰوۃ، الفصل الاوّل، ج۱، ص۴۳۱۔۴۳۲) 
     امام یحیی بن شرف الدین نووی علیہ رحمۃ اللہ القوی ''شرح مسلم''ميں لکھتے ہيں: ''ہمارے اصحاب شوافع ،امام الحرمين اور محققين کے نزديک یہ(يعنی مزارات وغيرہ کے قصدسے)سفرکرنانہ حرام ہے، نہ مکروہ،البتہ! فضيلتِ کاملہ ان تين مسجدوں کی طرف سامانِ سفرباندھنے ميں ہے۔''
(شرح المسلم للنووی،سفرالمرأۃ مع محرم الیٰ حج وغيرہ، ج۱،ص۴۳۳)

Comments

Popular posts from this blog

زیارتِ روضۂ اقدس کرنے کے دس فوائد:

اَعرابی کو نوید ِ بخشش مل گئی :

زیارتِ روضۂ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم